قارئین! آپ بھی بخل شکنی کریں۔ اپنے روحانی اور طبی مشاہدات لکھیں نیز عبقری کے آزمائے ہوئے تجربات سے قارئین کو ضرور مستفید کریں اور صفحے کے ایک طرف لکھیں چاہے بے ربط ہی کیوں نہ ہو۔ نوک پلک ہم خود سنوار لیں گے۔
ہمارا دین خود بڑا خزانہ ہے
بچپن میں ایک کہانی سنتے تھے کہ ایک شخص کو چلتے چلتے راستہ میں ایک پتھر مل گیا اس نے اس سے لوہے کورگڑا تو وہ سونا بن گیا۔ سننے والوں کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ ان کو بھی کہیںسے ایسا پتھر مل جائے جو سونا بنا دے۔ یہ تو ایک قصہ کہانی ہے مگر آج حقیقت کا زمانہ ہے اس میں بھی ہمیں ایسا پتھر مل سکتا ہے سوال صرف صحیح تلاش کا ہے۔ آپ کسی بینک میں خزانچی کا کمرہ دیکھیں اس میں دولت کے انبار نظر آئیں گے ملک کے طول و عرض میں ایسے ہزاروں کمرے ہوں گے جہاں دولت بکھری پڑی نظر آئے گی۔ نوٹوں کے بنڈل وافر تعداد میں ہوں گے۔ یہ دولت آج انسان خود بناتا ہے۔ یہ اسی مٹی سے پیدا ہوتی ہے۔زمین کے سینے میں خزانے مدفون ہیں۔ انسان محنت کرکے انہیں نکال رہا ہے۔ زمین نکلنے والا سونا ‘چاندی ‘کوئلہ اور اب تیل (پٹرول) جسے سیال سونا کہتے ہیں دولت ہی دولت ہے۔ ان کو زر و جواہرات میں بدلا جاتا ہے۔دولت کی اس قدر فراوانی کے باوجود انسانیت کا کثیر حصہ بھوکوں مر رہا ہے اور فاقہ کشی پر مجبور ہے۔ محنت شاقہ کے باوجود دو وقت کی روٹی سے محروم ہے۔ گرم سرد موسم میں اپنا دفاع نہیں کر سکتے۔ اس میں قدرت کا قصور نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی نظام کی بدنظمی ہے۔کبھی کوئی شخص اپنی قسمت کی مہربانی سے ممتاز مقام حاصل کر لیتا ہے تو اس سے حسد کیا جاتا ہے۔ جس طرح زمین کے اندر سونا چاندی پٹرول وغیرہ خزانے ہیں اسی طرح خود انسان کے اندر خزانے موجود ہیں ان سے انسان اپنی ذات کی تکمیل کر سکتا ہے۔ ہماری تاریک راتوں کو روشن کرنے والی بجلی صدیوں سے ہوا میں موجود تھی۔ جب انسانی ذہن نے اس کے متعلق سوچا ‘ محنت کی تو آخر اس کو پا لیا۔ ایک سائنسدان نے بلب میں اس کو مقید کر دیا۔ریڈیو‘ ٹی وی ایک بٹن گھمانے سے ہزاروں میل دور کے نظارے اور آوازیں آپ تک پہنچا دیتا ہے۔ آخر یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ جو چیزیں ان میں استعمال کی گئی ہیں یعنی خام مال وہ تو قدرت کی طرف سے پہلے ہی مہیا ہے۔ پس لوگوں نے اپنے ذہنوں کو استعمال کیا اور ان خزانوں کو کریدا اور قدرت کی طاقتوں کو اپنے استعمال میں لانے لگے۔ انسان اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا سب سے اعلیٰ نمونہ ہے اور سب سے بڑا خزانہ اس کا ذہن ہے۔ یہ خزانہ محض مادی نہیں بلکہ اس میں روحانیت کے زرو جوہر بھی موجود ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہی خزانہ انسانی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ ذہن انسانی کی بہت سی قوتیں ہر روز ضائع ہوتی ہیں اور دنیا میں سب سے بڑا ضیاع یہی ذہنی اور دماغی استعداد کا ضائع کرنا ہے۔جس پتھر کا ہم نے شروع میں ذکر کیا تھا وہ دراصل علم ہے۔ صاحب علم جس چیز کو ہاتھ لگاتا ہے وہ سونا بن جاتی ہے ہمیں آسمان اور ستارے روز نظر آتے ہیں۔کسی بات سے ایک شخص غصہ سے کانپنے لگتا ہے جبکہ دوسرا شخص اس کو مسکرا کر ٹال دیتا ہے۔ یہ اپنا اپنا شعور ہے۔ جرات ‘ درخواست اسی لاشعور کے تجربات ہیں جو لوگ زندگی میںہار نہیں مانتے وہی کامیاب ہوتے ہیں، آپ اگر خوشی کی زندگی چاہتے ہیں تو حوادثات اور واقعات کے روشن پہلو کو سامنے رکھا کریں۔ استقلال اور بلند ہمتی کو زندگی کا رہنما بنائیں۔ اپنی ذات میں غور و فکر کریں اور اپنے تدبر سے راہ حق کے مسافر بنیں کیونکہ قرآن میں ارشاد ہے ”بے شک علم والے اور بے علم آپس میں برابر نہیں ہو سکتے“۔(ایم ایم قریشی‘ لاہور)
خواتین کیلئے تحفہ
جس طرح روز بہ روز چیزوں کی قیمت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے بالکل اس کے ساتھ ساتھ خوبصورتی بھی اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ حسن و جمال عورت کا زیور ہے وہ ہمیشہ حسین اور خوبصورت نظر آنا چاہتی ہے ۔ لہٰذا میں نے سوچا کہ ایک کم قیمت‘ آسان مگر معیاری اور آزمودہ فیشل آپ کی نذر کروں۔ یہ طریقہ میری طالبہ نے مجھے بتایا جو میرے پاس ٹیوشن کیلئے آتی ہے۔ اس نے ٹی وی پر دیکھا اور آزمایا ‘ یقین کریں اتنا اچھا رزلٹ کہ انسان حیران مگر ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہر معاملے میں صبر سے کام لینا چاہیے ہر اچھی چیز کا رزلٹ آہستہ آہستہ ہی ملتا ہےیہ آزمودہ ہے۔فیشل کا گھریلو‘ سادہ اور آسان ٹوٹکہ یہ ہے کہ دو انڈوں کی زردیاں‘ 4 عدد بادام کا پاﺅڈر‘ ایک چمچ شہد‘ آدھا چمچ زیتون کا تیل‘ میٹھا سوڈا ایک چٹکی پیالی میں ڈال کر تمام چیزوں کو مکس کر لیں۔ 15 منٹ تک مساج کریںاس کے بعد منہ دھو لیں یہ مواد فریج میں سٹور کر لیں چار دفعہ استعمال کریں ہفتے میں ایک بار۔ لیکن ایک بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ خوبصورتی صرف محرم کے لئے جائز ہے ۔کسی بھی چیز کا ناجائز استعمال نہ کریں۔ خدا کی دی ہوئی چیزوں کی قدر اور اس کا ہر لمحہ شکر کریں۔ (عظمیٰ ریاض‘ لیاقت پور)
اپنی مرضی سے پڑھائی کرنے کا نتیجہ
محترم حکیم صاحب!
زندگی کے تلخ تجربات نے ایک وقت میں مجھے قوت فیصلہ سے محروم کر دیا۔ مالی تنگی اورگھریلو پریشانیوں سے ہر رشتے نے منہ موڑ لیا۔ ہر کسی کو اپنا محسن مان لیتی اور اعتبار کر کے دوسروں کے پیچھے بھاگنا میری سزا بن چکا تھا۔ ایسے میں ایک عورت نے مجھ پر ترس کھا کر مشورہ دیا کہ رات کے پچھلے پہر 40 دن تک مبینوں کے ساتھ سورہ یٰسین پڑھوں۔ اس کا آزمودہ تجربہ تھا کہ چالیس دنوں سے پہلے پہلے ہی مراد پوری ہو جاتی ہے۔ کسی اور نے سورہ مزمل بتایا تھا میں نے دونوں کی تسلسل سے چالیس روز پڑھائی کی ۔ ناپاکی کے دنوں میں بھی ناغہ نہیں ہونے دیا۔ مطلوبہ صفحات کی فوٹو کاپی کروا کر ایک بڑے کیلنڈر پر چپکا دیا۔ چند مہینوں کے بعد ایسا معجزہ ہوا کہ اللہ نے گھر کا مسئلہ بھی حل کر دیا ‘ والد صاحب نے جائیداد اپنی اولاد کو دینے کا فیصلہ کیا تو مجھے بھی رہنے کیلئے چھت مل گئی ‘ بچوں کی تعلیم کے راستے بھی نکلنے شروع ہو گئے‘ میرا عقیدہ اور بھی مضبوط ہو گیا ‘ کچھ رات کو اُٹھنے کی عادت پکی ہو گئی تھی۔ میں نے یہ پڑھائی جاری رکھی ۔ 40 دنوں کی معینہ مدت کے بارے میں میرے ذہن سے نکل گیا۔ پھر اس دوران اس عورت سے بھی ملاقات نہ ہوئی۔ میں نے یہ سبق تین سال تک جاری رکھا ۔ پھر کسی بیماری کی وجہ سے یہ سلسلہ چھوٹ گیا۔ اس وقت تو میں نے محسوس نہیں کیا لیکن اس دوران کئی ایسے واقعات ہوئے جو حیرت انگیز تھے۔ سب سے پہلے یہ واقعہ ہوا کہ جائیداد کے تنازع پر ننھیال سے مرنا جینا ختم ہو چکا تھا۔ والدہ وفات پا چکی تھیں شاید اس لئے صلح کا کوئی راستہ نہ نکلا۔ ایک دن نانی کی سخت یاد آئی ملنے چلی گئی سخت کمزور ہو چکی تھیں۔ بیماری کے ساتھ ساتھ جسم پر گندگی بھی لگی تھی۔ انہیں نہلایا دھلایا اور صاف ستھرا کر دیا۔ گھر آ کر بھی رات بھر دل بے چین رہا۔ اگلے دن قدم خود بخود اس طرف اٹھ گئے۔ نانی کو دوبارہ دیکھنے چلی گئی۔ حالت زیادہ خراب ہو چکی تھی کہ بول بھی نہیں رہی تھیں‘ جوس پلاتے ہوئے میرے ہاتھوں میں ہی جان دے دی۔ چند مہینوں بعد دوسرے ماموں کی طبیعت خرابی کا کسی سے سنا بے چین ہو کر اگلے دن عیادت کیلئے ادھر جانے کا ارادہ کیا ۔ان کے گھر کے اندر داخل ہوئی تو پتا چلا ابھی ابھی ان کا جنازہ لے کر گئے ہیں۔ گھر کی خواتین حیران تھیں کہ مجھے کیسے پتہ چلا جب کہ ہمارے خاندان میں سے انہوں نے کسی کو اطلاع نہیں کی تھی۔ دوسرے میرے اچنبھے اوربیان سے بھی انہیں حقیقت کا اندازہ ہو گیا ۔ پھر ایک کزن کو میںنے کسی سے بات کرتے سنا کہ یہ عورت جہاں جاتی ہے وہ فوت ہو جاتا ہے۔ اس وقت تو مجھے برا لگا اور میں نے بات پر غور نہیں کیا۔ مگر آنے والے وقتوں میں کئی مرتبہ ایسا ہوا ہے۔ چند سال پہلے میرا بیٹا بھری جوانی میں میرے سامنے فوت ہو گیا۔ یرقان کا مریض تھا‘ میں زبردستی اسے ہسپتال لے گئی شاید ڈاکٹر کے غلط انجکشن نے انفیکشن کیا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ بعض ڈاکٹرز سے سنا ہے اب کہ یرقان میں کوئی دوائی استعمال نہیں کرائی جاتی وہ کیسے ڈاکٹر تھے کہ انجیکشن لگا دیا۔ ایک احساس جرم میرے دل سے نہیں نکلتا۔ بیٹا معمولی مرض جان کر جانا نہیں چاہ رہا تھا۔ میرے باربار کہنے پر وہ میرے ساتھ چل پڑا اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ میں اپنے بچوں کے ساتھ باتیں کر رہی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی میں نے فون اٹھایا تو سلام کی بجائے میرے منہ سے نکل گیا۔ اِنا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُون۔ دوسری طرف سے آواز آئی آپ کو پتہ چل گیا کہ والد صاحب فوت ہو گئے ہیں جبکہ مجھے فون پر ہی پتہ چلا تھا۔ بعد میں بچوں نے پوچھا کہ آپ کو تو پتہ نہیں تھا پھر آپ نے ایسا کیوں کہا۔ اس کا جواب میرے پاس بھی نہیں تھا کہ میرے منہ سے خود بخود نکل گیا تھا۔ اس کے علاوہ میری موجودہ حالت یہ ہے کہ نہ نماز میں دل لگتا ہے نہ قرآن پڑھنے میں.... زبردست بے چینی و بے قراری اور خوف کا عالم رہتا ہے کہ جیسے کچھ غلط ہونے والا ہے ‘ کچھ ہو نہ جائے۔ نہ کسی پر اعتبار کرسکتی ہوں نہ اعتماد۔ میری ایسی پریشانی کا حل ضرور بتائیے۔ پہلے میرا خیال تھا یہ سب ویسے ہی ہو رہا ہے لیکن اب مجھے یقین ہو چلا ہے کہ یہ سب اس پڑھائی کا نتیجہ ہے جو میں نے کسی بزرگ اور اللہ والے کی اجازت کے بغیر اپنی مرضی کے مطابق پڑھی اور خود ہی چھوڑ دی ‘جس سے نفع سے زیادہ مجھے نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔ مہربانی فرما کر میری مدد کیجئے۔ ماضی کے تلخ واقعات میرے دماغ میں ٹھسے ہوئے ہیں۔ جن سے میں جان چھڑانا چاہتی ہوں۔ ذہنی یکسوئی حاصل کرنا چاہتی ہوں۔ طلاق کی وجہ سے سُسرال والوں سے تعلق ٹوٹ گیا اور مالی پریشانیوں کی وجہ سے میکے والوں سے بھی۔ ادھر جانے کا کوئی بھی بہانہ ڈھونڈ لیتی تھی لیکن اب واضح محسوس ہوتا ہے کہ میرے جانے سے انہیں کوئی زیادہ خوشی نہیں ہوتی۔ ماں باپ فوت ہو چکے ہیں‘ والدہ کو گزرے 14 سال ہو گئے اور والد کو 8 سال ۔ کچھ ذمہ داریوں کی وجہ سے چاہت میں وہ گرمی نہیں رہی ‘ کبھی سوچتی ہوں کہ میں ہی منحوس ہوں۔ میری وجہ سے کسی کو کوئی سکھ ملنے والا نہیں۔ اکیلا رہنا اور تنہائی میں بیٹھنا ہی پسند کرتی ہوں۔ میرا منفی رویہ میرے بچوں پر بھی اثر انداز ہو چکا ہے۔ وہ بھی دوسروں کے سامنے گھبرا جاتے ہیں۔ کھل کر خود اعتمادی سے بات نہیں کر پاتے۔ مایوسی اور نا امیدی کا جلدی شکار ہو جاتے ہیں۔ میں یہ مضمون پڑھنے والوں سے گزارش کروں گی کہ کبھی بھی اپنی مرضی سے کوئی وظیفہ نہ شروع کریں اور نہ اپنی مرضی سے ختم کریں پہلے کسی صحیح عامل یا بزرگ سے اجازت لیں اور پھر اس کی پابندی سے مقررہ مدت تک کریں۔
عملیات کا شوق
محترم جناب حکیم طارق محمود صاحب !
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
امید ہے مزاج گرامی بخیر و عافیت ہوں گے۔ میں عبقری رسالہ ہر ماہ پڑھتا ہوں اور بہت لذت محسوس کرتا ہوں کہ سچے واقعات کے مختلف موضوعات پر مضامین آتے ہیں اور آپ اس دور میں خلوص نیت سے دکھی انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ دسمبر کے رسالے میں یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ آپ نے عملیات سیکھنے والوں کیلئے وقت نکالا اور سیکھانے کا اہتمام فرمایا۔ اللہ پاک آپ کے اس اخلاص کو قبول فرمائے۔ چونکہ میں بھی عملیات کا شوق رکھتا ہوں اور پھر خاص کر علم حاضرات کا ‘ میں بچوں پر حاضرات کرواتا ہوں لیکن خود حاضرات کا متلاشی ہوں‘ مختصر یہ کہ عاملوں نے مجھے بہت دکھ دیئے ہیں۔ آپ مہربانی فرما کر تفصیلات سے آگاہ کر کے کورس میں شامل فرمائیں۔ تازیست دعا گو رہوں گا۔ (محمد عابد‘ پشاور)
ایڈیٹر:۔ آپ ماہنامہ عبقری کے دفتر میں رابطہ کریں ‘آپ کو مفصل آگاہ کر دیں گے۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 252
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں